Unique ways to avoid the death of a foolish king بے وقوف بادشاہ کی موت سے بچنے کے انوکھے طریقے

                  

حضرت حنظلہ علیہ السلام کے زمانے میں ایک کم عقل بادشاہ نے موت سے بچنے کے لیے ایسی ایسی تدبیریں اختیار کی کہ جو صحاب عقل والوں کے لیے تفریح کا باعث ہے اس بےوقوف بادشاہ نے موت سے بچنے کے لیے کون کون سی تدبیریں  اختیارکی اور موت  کیسے اس پر طاری ہوئی ان سب باتوں کو جاننے کے لیے حضرت حنظلہ  علیہ السلام کےزمانے کا مختصر جائزہ لیتے ہیں۔

In the time of Hazrat Hanzala (as) a foolish king took such measures to avoid death which is a source of entertainment for the people of common sense. What measures did this foolish king take to avoid death and how did death happen? To know all these things that happened to him, let us take a brief look at the time of Hazrat Hanzala (as).



تعارف

قوم بنی اسرائیل کی طرف بے شمار انبیاء اکرام علیہ السلام بھیجے گئے جن میں حضرت حنظلہ علیہ السلام کو بھی اللہ تعالی نے قوم بنی اسرائیل کی ہدایت کے لیے بھیجا تو حضرت حنظلہ علیہ السلام ہر روز شہر کے چاروں طرف دروازں پر جا کر قوم بنی اسرائیل کو پکار پکار کر کہتے  کہ "اے لوگو!  "خداوند قدوس کو واحد جانو اور اسی کو پوجو اسی کو اپنا معبود حقیقی ما نو بت پرستی چھوڑ دو،اے قوم شیطان نے تم کو گمراہ کیا ہے، لوگواللہ تعالی سے ڈرتے رہو اور حقیقت میں وہی تمہارا  رب ہے"  چونکہ یہ قوم گمراہی میں اتنی آگے بڑھ چکی تھی تو اس قوم نےنے حضرت حنظلہ علیہ السلام کی ایک نہیں سنیاور حضرت حنظلہ علیہ السلام کو مار ڈالنے پر رضا مند ہو گئے اس شہر کا بادشاہ اس کا نام طیفور ابن طیفا نوس تھا  وہ بارہ ہزار غلام اور اپنے ساتھ خزانے بے حد رکھتا تھا اور لشکر بھی اس کا بے شمار تھا اس مردود نے حکم دیا کہ تم لوگ حضرت حنظلہ علیہ السلام کو پکڑ کر مار ڈالوں ادھر حضرت حنظلہ علیہ السلام رات دن پہاڑپر چڑھ کر اللہ تعالی کے دین کی دعوت  پکار پکار کر لوگوں کو دیتے تھے کہ قوم بنی اسرائیل رات دن آرام نہیں کر سکتی تھی اور نہ وہ  صحیح طور پر سو سکتے تھے۔ 

 Introduction

Numerous Prophets (peace be upon him) were sent to the nation of Israel, among whom Hazrat Hanzala (peace be upon him) was also sent by Allah Almighty for the guidance of the nation of Israel. They used to shout and say: “O people! Know the One and Only God and worship Him. Leave Him as your true God and worship idols. O people of Satan! He is your Lord. ”Since this nation had gone so far astray, they did not listen to Hazrat Hanzala (as) and they agreed to kill Hazrat Hanzala (as). He had twelve thousand slaves and he had innumerable treasures with him and his army was also innumerable. He was rejected. He used to call people to the religion of the Almighty, saying that the people of Israel could not rest day and night, nor did they Could sleep.

اس قوم پر عذاب 

مسلسل تبلیغ کے باوجود یہ قوم اپنی ہٹ دھرمی پر قائم رہی تو حضرت حنظلہ علیہ السلام نے کہا کہ اے قوم تم بت پرستی چھوڑ دو ورنہ کل تم پر عذاب نازل ہو گا تم پر مرگ مفاجات آجائے گا۔  پس وہ لوگ اپنی موت سے بے خبر تھے وہ نہیں جانتے تھے کہ موت کیسی ہے کیونکہ اس قوم میں سات سو برس تک کوئی بھی ان میں سےمرا نہ تھا اس لئے وہ حضرت حنظلہ کی بات پر یقین نہ کرتے تھے جب  عزاب الہی  آیا تودوپہر کا وقت تھا اس سے ہزاروں آدمی واصل جہنم ہوئے اور جو باقی بچے وہ اپنے بادشاہ کے پاس جا کر کہنے لگے کہ آج مرگ مفاجات سے بے شمار لوگ ہماری  قوم کے مر گئے۔ س کم عقل بادشاہ نے کہا :"یہ مرگ مفاجات نہیں بلکہ تم حنظلہ علیہ السلام کے شور و غل سے رات کو سو نہیں پاتے یعنی کثرت بیداری سے گرمی نے غلبہ کیا  اور یہ موت  نہیں بے حوشی کا علم ہے وہ سب مرے نہیں زندہ ہیں تم ان کو سیخ چبھو کر دیکھو وہ اپنے آپ سے اٹھ بیٹھیں گے" پس طیفور مردود کے کہنے سے ان گمراہوں نے ایسا ہی کیا اور ان میں کچھ حس وحرکت نہ ملی پھر بادشاہ سے جاکر کہا کہ آپ نے جو کچھ کہا تھا سو ہم نے کرکے دیکھا لیکن ان میں میں کچھ حسو حرکت نہ ملی اس نے کہا سچ ہے وہ سب مر گئے ہیں۔



The torment on this nation

Despite continuous preaching, this nation remained steadfast in its stubbornness. Hazrat Hanzala (PBUH) said: O people, give up idolatry, otherwise tomorrow torment will fall on you and death will befall you. So they were unaware of their own death, they did not know what death is like, because none of them was dead in this nation for seven hundred years, so they did not believe in the words of Hazrat Hanzala when the divine punishment came at noon. There was a time when thousands of people were sent to hell and the rest of the children went to their king and said that today many people of our nation have died due to death. The king of low intellect said: "This death is not death, but you cannot sleep at night because of the noise of Hanzala (peace be upon him). If you bite them, you will see that they will rise up on their own. He tried but did not find any movement in them. He said it is true that they are all dead.

بادشاہ طیفور کی موت سے بچنے کی تدبیریں

پھر اس بادشاہ  مردود نے موت سے بچنے کے لیے ایک ایسا بلند خانہ بنوایا کہ بارہ ہزار برج اس میں تھے اور پھر ہر ایک برج پرسپاہی تلوار ہاتھ میں لے کر کھڑا کر دیا تا کہ موت اس برج پر آنے نہ پائے   اور اگر موت آ بھی جائے تو اس تلوار سے سپاہی اس کو مار کر ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالے اس بے وقوف بادشاہ کی کم عقلی پر یقیننا آپ کو بھی ہنسی آئی ہوگی خیر اس بادشاہ نے ایک گنبد بھی بنوایا اور اس گنبد کے درمیان ایک کوٹھری لوہے کی بنوائی اور پھر اس میں سنگ مرمر لگایا اور اس میں ایک شاہی تخت اور ہر قسم کی نعمت رکھ دیں اور شمع بھی اس میں روشن کراس  تخت پر جا بیٹھا اور کہنے لگا:    "اے موت !اب تو میرا کیا کر سکتی ہے تو اس لوہے کی کوٹھری کے اندر کس طرح آ سکتی ہیں اب تو اس کے دروازے بھی بند ہیں"  وہ اسی گھمنڈ میں تھا کہ اچانک ایک مرد بڑا ہے ہیبت والا گنبد کے درمیان جہاں بادشاہ بیٹھا تھا اس جگہ کھڑا ہوا دیکھا اور ایسا معلوم ہوتا تھا کہ ابھی اس بادشاہ مردود کی جان نکل جاے   پھر بادشاہ نے اس سے پوچھا کہ تم کون ہو اور یہاں کس طرح آئے ہو؟ اس نے کہا" میں اعزرائیل ہو  یہاں تیری جان قبض کرنے کو آیا ہوں"  بادشاہ بولا "آج تو مجھ کو ذرا مہلت دو کل جو چاہو سو کرنا تب ملک الموت چلے گئے زندگی بادشاہ  کی ایک دن اور باقی تھی۔ پس ملک الموت کے جانے کے بعد وہ مردود وہاں سے نکل کر ان غلاموں کو جوان برجوں  میں چوکیدار تھے مارنے لگا کہ کیوں تم نے عزرائیل کو یہاں آنے دیا وہیں کیوں نہیں مار ڈالا انہوں نے کہا اے بادشاہ ہم نے اس کو نہیں دیکھا کہ وہ کس طرح آیا اس کے بعد بادشاہ  اس گنبد میں جا کر دیکھتا ہے کہ اس میں ایک سوراخ ہے وہ سمجھا کہ عزرائیل کی آمد اسی سوراخ سے ہوئی ہے  لہذا وہ اس سوراخ کو بند کرنے لگ گیا اور جب وہ بند ہوگیا تو پھر وہ بہت ہی بے پرواہ ہو گیا اور تخت پر جا بیٹھا اس نے گنبد اس طرح سے بنوایا تھا کہ دیکھنے والا خیال نہیں کر سکتا تھا کہ اس کا دروازہ کہاں سے ہے تھوڑی دیر بعد جب اس نے اپنی نظر اٹھا کر دیکھا تو تو کیا دیکھتا ہے کہ حضرت عزرائیل علیہ السلام اسی جگہ   گنبد کے اندر موجود ہیں جہاں کل دیکھا تھا پوچھا کہ تم کس سے آئے ہو یہ بات سن کر انہوں نے کچھ جواب نہ دیا فوراجگر میں ہاتھ ڈال کر جان اس مردود کی اور اس کے ساتھ 12000 غلاموں کی جو اس کی حفاظت میں چوکیدار تھے ایک ہی پل میں قبض کر لی  پھر نہ وہ وہ قصر رہا اور نہ وہ گنبد نہ مالک رہا اور نہ وہ غلام  سب کے سب جہنم  رسید ہو گئے اور پانی دریاؤں اورچشمے کا سکھا  دیا نہ ملک رہا نہ حشم نہ پانی کا سبب ویران ہوگیا. 



Measures to avoid the death of King Tayfur

Then King Mardud built a tower to escape death with twelve thousand towers in it and then he stood on each tower with a sword in his hand so that death could not come on this tower and even if death came The soldiers would have killed him with this sword and cut him to pieces. You must have laughed at the foolishness of this foolish king. Well, this king also built a dome I put the marble and put a royal throne and all kinds of blessings in it and the candle also sat on the bright cross throne in it and said: "O death! What can you do to me now inside this iron chamber?" How can she come? Now her doors are closed. ”He was so proud that suddenly a man was standing in the middle of the awesome dome where the king was sitting. When he died, the king asked him who he was and how he got here. He said, "I am Israel, I have come here to take your life." The king said, "Give me a little respite today. Then he went out and killed those slaves who were guards in the young towers. Why did you let Azrael come here? Why didn't you kill him there? They said: O king, we have not seen him how he came Then the king went to the dome and saw that there was a hole in it. Sitting on the throne, he had built the dome in such a way that the viewer could not imagine where the door was from. There are people inside the dome whom I saw yesterday and asked who you have come to. Hearing this, they did not give any answer. He captured the lamas who were guarding him in an instant, then he was neither shortened nor the dome nor the owner nor the slave all became the receipt of hell and the water of the rivers and springs did not remain the country Neither Hashm nor Pani became desolate.

شہر سے بڑا سانپ

جو باقی بچے تو حضرت حنظلہ علیہ السلام نے ان کو دین کی تبلیغ کی اور کہا کہ تم ایک خدا پر ایمان لاؤ گے تو تم اس عذاب سے نجات حاصل کر سکتے ہوور نہ کسی طرح بچ نہیں سکتے ہو اس  بدبخت قوم نے کہا کہ یہ سب بلائیں اور مصیبتیں تمہاری بدخواہی اور نحوست سے ہم پر نازل ہوئی ہیں اگر تم نہ ہوتے تو یہ مصیبتں بھی ہم پر کبھی نہ آتی یہ کہہ کروہ حضرت علی علیہ السلام پر دست درازی کرنا چاہتے تھے کہ اتفاق حضرت علی علیہ السلام ان کے بیچ سے نکل گئے اس کے بعد اللہ تعالی نے ایک سانپ ایسا ان کے واسطے بھیجا کہ اس شہر کا طول و عرض چھتیس کوس تھا اس سانپ نے یکبارگی چاروں طرف سے اس کا احاطہ کرلیا اور شہر کو دبانا شروع کیا تاکہ مقامات ان پر تنگ ہو جائیں اور چشموں سے دھواں نکلا اور اس دھوئیں  سے اکثر لوگ ہلاک ہو گئے اور پھر کچھ روز بعد حضرت علی علیہ السلام نے اس جہان فانی سے رخصت فرمائی۔



A snake bigger than a city

The rest of the children, Hazrat Hanzala (as) preached the religion to them and said that if you believe in one God then you can be saved from this torment and you can not escape in any way. The calamities and calamities have befallen us due to your malice and misfortune. If it were not for you, these calamities would never have befallen us. After that Allah sent a snake for them so that the width of this city was 36 cubits. Smoke came out and most of the people died from this smoke and then a few days later Hazrat Hanzala (as) passed away.


Post a Comment

0 Comments