Paradise created in the world دنیا میں بنائی گئی جنت



شداد قوم عاد سے تھا  عاد کے دو بیٹے تھے ایک کا نام شدید اور دوسرے کا نام شداد تھا یہ دونوں ہفت اقلیم کے بادشاہ تھے اوردونوں کا مسکن ملک شام تھا۔ شدید تو تقریبا سات سو برس تک بادشاہی کر کے مر گیا اس کے بعد شداد ملعون بادشاہ ہوا اس نے تمام روئے زمین کو مسخر کیا اور جہاں تک اس کی بادشاہت کا تعلق تھا اسی کا حکم چلتا تھا اس کو حکومت ہی سے کام تھاشداد کا  عدل اتنا تھا کہ شیر اور بکری ایک ہی جگہ پانی پیتے تھے۔ شداد اور اس کے ماننے والے سب کافر تھے حضرت ہود علیہ السلام کو اس کی ہدایت کے واسطے بھیجا گیا تھا۔ 

Shaddad was from the tribe of Aad. Aad had two sons, one named Shadid and the other named Shaddad. Shaddad ruled for about seven hundred years and then died. After that Shaddad became the accursed king. He conquered all the earth and as far as his kingdom was concerned, he ruled. Justice was such that lions and goats drank water in one place. Shaddad and all his followers were infidels. Hazrat Hood (as) was sent to guide him.

حضرت ہود علیہ السلام اور شداد کا مکالمہ


حضرت ہود علیہ السلام نے جب اس کو دعوت ایمان پیش کی اور ایمان لانے کے لیےاس کو کہا تو وہ کہنے لگا" اگر میں تمہارا دین قبول کر لو تو ہم کو کیا فائدہ ہوگا" حضرت داؤد علیہ السلام نے فرمایا:"اللہ تعالی تجھ کو اس کے بدلے بہشت عنایت کرے گا اور ہمیشہ تجھ پر اپنا فضل و مہربانی فرمائے گا"  ملعون نے ایمان لانے کی بجائے حضرت ہود علیہ السلام سے کہا:   "اے ہود !تو مجھے بہشت کا طمع دلاتا ہے میں نے بہشت کی صفت سنی ہے، میں بھی اسی دنیا میں مثل اس کے بہشت بناوں گا اور دن رات عیش و عشرت کروں گا مجھے تیرے خدا کی بہشت کی کچھ حاجت نہیں"   اس مکالمے کے بعد شداد نے اسی وقت ہر ایک ملک کے بادشاہوں وزیر وں اور اکابر و ں کو خطوط لکھے جو اس کے زیر تابع تھے اور اس میں  لکھا کہ تمہارے ملک میں جس جگہ زمین ہموار اور میدان صاف ہو اور اس میں نشیب و فراز نا ہوں  اس کی جلد ہم کو اطلاع دو۔ اس کے بعد فورا ہی اپنے قاصد ہر جگہ بھیجے تاکہ وہاں سے سونا چاندی اور جواہرات لے کر جلدی آئیں اس وقت شدادکے زیر حکم ہزار ملک اور ایک ہزار بڑے شہر تھے اور ہر ملک اور ہر شہر میں تقریبا ایک لاکھ لوگ میں موجود تھے۔




Conversation between Hazrat Hood and Shaddad

When Hazrat Hud (as) offered him the invitation of faith and asked him to believe, he said, "What good will it do us if I accept your religion?" Hazrat Daud (as) said: Instead of believing, the accursed man said to Hazrat Hood (as): “O Hood! I will make paradise like it in this world and enjoy it day and night. I have no need for the paradise of your God. "After this conversation, Write letters to the elders who were subordinate to him and wrote in it that in your country where the land is smooth and the field is clear and there are no ups and downs in it, let us know as soon as possible. Immediately after that, he sent his messengers everywhere to bring gold and silver, and jewels from there. At that time there were a thousand countries and a thousand big cities under the rule of Shaddad and there were about one lakh people in each country and city.

شداد لعین کی بنوائی گئی جنت

بہت ہی شدید جستجو کے بعد خطہ عرب میں ایک قطعہ زمین جس کی مسافت چالیس فرسنگ کی تھی ملی اس کے بعد فورا امیروامراءکو حکم ہواکہ تین ہزاراستاد پیمائش کریں اور ہر ایک استاد کے ساتھ سو سو بہترین کاریگروں کوحکم مقرر کر دیا گیا اور سارے ملک کا خزانہ وہاں لا کر جمع کر دیا گیا سب سے پہلے چالیس گز زمین  نیچے سے کھود کر سنگ مرمر سے بنیاد بہشت کی رکھی گئی اور اس کی دیواریں چاندی اور سونے کی اینٹوں سے اٹھائی گئی اور ستون زبرجد  اور زمرد سے بنائے گئے۔  درخت نصف چاندی اور نصف سونے کے بنائے تھے اور پتیاں ان درختوں کی زمردسبز  سے جڑیں تھیں اور ڈالیاں ان کی یاقوت سے تھیں اور میوے انواع و اقسام کے ان پر لگائے گئے تھے اور بجائے خاک کے اس میں مشک و عنمبر زعفران سے پر کئے تھے اور بجائے پتھر کے اس کے صحن میں موتی اور مونگے ڈالے تھے اوراس میں شراب و شہد کی نہریں جاری کی تھیں اور بہشت کے دروازے پر چار میدان بنائے اور  ہر ایک میدان میں ایک ایک لاکھ  سونے چاندی کی  کرسیاں بچھی تھیں اور ہر کرسی کے سامنے ایک 1000 خوان  میں جملہ اقسام طرح طرح کی نعمتیں رکھی تھیں یہاں تک کہ تین سو برس میں اس کا کام سر انجام ہوا اور وکیلوں کو ہر ملک میں بھیجا کے درم بھر چاندی کس ملک میں نہ چھوڑو سب اس بہشت میں لاکر جمع کردو آخر یہ نوبت پہنچی کہ ایک عورت بڑھیا غریب مسکین یتیم کی بیٹی کے گلوبند میں ایک درم چاندی تھی ظالموں نے اسے بھی نہ چھوڑا اور آخر وہ لڑکی رو پیٹ کر کہنے لگی کہ میں غریب  ہوں سوائے ایک درہم چاندی کے اور کچھ نہیں ہیں لہذا یہ ایک درم مجھ کو بخش دو مگر انہوں نے کچھ نہ  سنا  اس غریب نےاللہ تعالی کی بارگاہ میں فریاد کی کہ یا الہی تو اس کا انصاف کر اس ظالم کے شر سے مظلوموں کو بچا اور بے انصافی کا تو انصاف کر غریب بڑھیا کی فریاد اللہ تعالی کی بارگاہ میں قبول ہوئی شداد نے سارے ملک کے حسین و خوبصورت لڑکے اور لڑکیاں دمشق میں جہاں اس کا گھر تھا اس میں جمع کئے کہ مانند حوروغلمان کے بہشت میں اس کی خدمت کے لیے رہیں۔



A paradise built by Shaddad Lain

After a very intense search, a plot of land was found in the Arabian region with a distance of forty furlongs. The treasure was brought there and deposited. The first forty yards of earth were dug from below and the foundation of Paradise was laid with marble its walls were raised with silver and gold bricks and the pillars were made of emerald and emerald. The trees were made of half silver and half gold. And instead of stones they put pearls and corals in its courtyard, and in it flowed streams of wine and honey, and made four squares at the gates of paradise, and in each square, one hundred thousand gold and silver chairs were spread, and in front of each chair. In a 1000 Khawan, all kinds of blessings were kept till it was completed in three hundred years and lawyers were sent to every country. The time came when a beautiful old poor orphan's daughter had a dirham of silver on her neck. The oppressors did not leave her either. Forgive me, but they did not hear. The poor man cried out to Allah, saying, Save the oppressed from evil and do justice to the poor. The cry of the poor old woman was accepted in the presence of Allah Almighty. Stay in Paradise to serve Him.

شداد کا انجام 


مکمل دس برس تک وہ کافر شداد  ارادہ کرتا رہا کہ کہ بہشت جا کر دیکھیں لیکن خدا تعالیٰ کو منظور نہ تھا کہ وہ اپنی بنائی ہوئی بہشت میں جائے۔ ایک روز دو سو غلاموں کو ساتھ لے کر بہشت کو دیکھنے گیا جب وہ بہشت کے نزدیک جا پہنچا تو اس نے اپنے غلاموں کو چاروں میدانوں میں بھیجا اور ایک غلام کو ساتھ لے کر چاہا کے بہشت میں جائے وہیں بہشت کے دروازے پر کھڑا ہوا ایک شخص دیکھا   شداد نے پوچھا تم کون ہو؟  اس نے جواب دیا "میں یہاں تیری جان قبض کرنے آیا ہوں "شداد نے کہا:" تو مجھے مہلت دے تاکہ میں اپنی بنوائی ہوئی بہشت کو دیکھ لوں" ملک الموت نے کہا :"خدا کا حکم نہیں ہے کہ تو اپنی بناوائی ہوئی جنت میں جاے کیونکہ تجھ کو دوزخ میں جانا ہے" پھر شداد نے کہا چھوڑ میں گھوڑے سے اتروں ملک الموت نے کہا نہیں اسی حالت میں اس کا ایک پاؤں گھوڑے کی رکاب میں رہا اور دوسرا پاؤں بہشت کے دروازے پر تھا کہ جان اس کی قبض کرلی گئی اور وہ مردود دوزخی  ہوا اور ایک فرشتے نے آسمان سے ایسی سخت زور سے آواز کی کہ سب سااتھی اس کے ہلاک ہوگئے اور ایک لقمہ کھانے کے فرصت نہ ملی اس وقت نا مال رہا نہ ملک ادنی و اعلی سب برابر ہو گئے  ملک غرق ہو گیا اور وہ سب دوخی ہوئے اور اس بہشت کو زمین کے نیچے دبا دیا کہ قیامت تک کچھ اثر اس کا باقی نہ رہے۔ 



The end of Shaddad 

For a full ten years, the infidel Shaddad intended to go to paradise, but God did not approve of him going to the paradise he had created. One day he went to see Paradise with two hundred slaves. When he reached Paradise, he sent his slaves to the four plains. The man saw Shaddad and asked, "Who are you?" He said, "I have come here to take your life." I will go because you have to go to hell. "Then Shaddad said," Let me get off the horse. " And he was rejected and he was in hell and an angel cried out from heaven so loud that all his companions perished and he did not get a chance to eat a single morsel. Gone and they all became miserable and buried this paradise under the ground so that it will not have any effect till the Day of Resurrection.










Post a Comment

0 Comments