Pharaoh's meeting with Gabriel فرعون کی حضرت جبرائیل علیہ السلام سے ملاقات


 حضرت موسی علیہ السلام کی آمد سے پہلے اور اپنے خدا ہو نے کادعویٰ کرنے کے بعد فرعون کی زندگی میں ایک ایسا وقت بھی آیا کہ جب فرعون نےاللہ تعالی کے حضور سجدہ ریز ہو کر اللہ تعالی کو ہی معبود برحق ہونے کا اقرار کیااور  اللہ تعالی سے فریاد کی اوراسکے علاوہ فرعون کی موت دریا نیل ہی میں کیوں ہوئی اس کی اہم وجہ کیا ہے آئے اس واقعےکے بارے میں جانتے ہیں۔

Before the advent of Prophet Moses (PBUH) and after claiming to be his God, there came a time in Pharaoh's life when Pharaoh prostrated himself before Allah and confessed that Allah is the only true God. Let us know what is the main reason why Pharaoh died in the river Nile.



مختصر تعارف

جب فرعون نے اپنی قوم کو بلا کر خدا ئی کادعویٰ کیا  تو اس وقت اس کی قوم دو گرہوں میں بٹ گئی ایک قوم قبطی جس نے فرعون کو خدا مانا اور ایک قوم بنی اسرائیل جس نے اس کوخدا ماننے سے  انکار کیا۔ تو فرعون بنی اسرائیل کو طرح طرح کی تکلیفیں پہنچاتا اور تمام مشکل کام  یعنی بوجھ اٹھانا لکڑی چیرنا اور گھاس کاٹنا جھاڑو کشی کے کام قوم بنی اسرائیل سے کرواتا اور قبطیوں کو انعامات سے نوازتا اور بنی اسرائیل کو قبطیوں کی خدمت میں بھیج دیتا تھا۔ قوم بنی اسرائیل تیرہ برس تک فرعون کے عذاب میں مبتلا رہی اور اسکی قوم کی خدمت میں گرفتار رہی لیکن ان تکلیفوں کے باوجود قوم بنی اسرائیل اپنے  دین اسلام سے نہیں ہٹےاور اسی حالت میں استغفاراور خدا کی عبادت کرتے رہے۔   فرعون اور اس کی قوم  قبطی اسی گمراہی اورکفر میں پڑے رہے ۔

Brief introduction

When Pharaoh called his people and claimed to be God, his people were divided into two groups: the Coptic people who believed in Pharaoh as their god and the people of Israel who refused to believe in him. So Pharaoh would inflict all kinds of hardships on the children of Israel and he would make the people of Israel do all the hard work carrying loads, chopping wood and cutting grass and sweeping the grass, rewarding the Copts, and sending the children of Israel to serve the Copts. The nation of Israel remained under the torment of Pharaoh for thirteen years and remained in the service of his nation but despite these hardships, the nation of Israel did not turn away from their religion of Islam and continued to seek forgiveness and worship God in the same condition. Pharaoh and his Coptic people remained in the same error and disbelief.

دریائے نیل کا پانی خشک ہونا

پھر ایک روز ایسا اتفاق ہوا کہ اللہ تعالی نے اپنی قدرت کاملہ سے دریائے نیل کو سکھا دیا اور اس میں کچھ بھی پانی باقی نہ رہا۔ یہ دیکھ کر فرعون کی قوم نے اکٹھے ہو کر کہا کہ "اگر تو ہمارا خدا ہے تو دریا نیل کا پانی جاری کر دے تب  ہم جانیں گے کہ تو ہمارا رب ہے" 



The water of the Nile dries up

Then one day it happened that Allah Almighty with His perfect power taught the river Nile and there was no water left in it. When the people of Pharaoh saw this, they gathered together and said, "If you are our God, then release the waters of the Nile, then we will know that you are our Lord."

فرعون کا غار میں جانا

پس فرعون نے یہ بات  سنتے ہی سات لاکھ سوار اپنے ہمراہ لے کر میدان سعد کی طرف نکل گیا اور ایک ایک منزل پر ایک ایک لاکھ سوار کو چھوڑتا گیا اس طرح سب کو رخصت کرکے تنہا ایک میدان میں جا کر ایک غار کے اندر گھسا اور گھوڑے کی باگ کو گلے میں لپیٹ کر کے قبلہ روخ ہو کر سجدے میں جا گرا یہ وہ وقت تھا جب فرعون نے اللہ کے حضور  اپنی فریاد پیش کی اور پھر یہ مناجات کی:     "الہی تو حق پر ہے اور میں باطل پر ہوں اور میرا رب بے نیاز بے پرواہ ہے اور میں نے دنیا کےبعوض آخرت اختیار کیا  اے میرے رب جو کچھ مجھ کو دینا ہے تو وہ مجھے دنیا کی زندگی میں ہی دے دے اور میں آخرت میں نہیں چاہتا ہوں اور یہ مجھ کو معلوم ہے کی آخرت میں میرے لیےدوزخ کے سواکچھ نہ ہوگا۔" 

Pharaoh's Cave

As soon as Pharaoh heard this, he took seven hundred thousand horsemen with him to the plain of Sa'd, and left one hundred thousand horsemen on each floor, leaving them all alone. Wrapping the horse's bridle around his neck, he turned to face the qiblah and fell down in prostration. The Lord is selfless and careless and I have chosen the Hereafter for this world. O my Lord, give me what I have to give in this worldly life and I do not want in the hereafter and I know that in the hereafter there will be no hell. "



غار میں ایک نوجوان سے ملاقات

جب فرعون نے خدا کی درگاہ میں یہ مناجات کی تو اسی وقت ایک شخص غیب سے آیا اور اس غار کے دہانے پر کھڑا ہوگیا۔  اور فرعون سے کہنے لگا: میں ایک شخص کی شکایت تہمارے پاس لایا ہوں تم اس کا انصاف کرو یہ سن کرفرعون بولا  تو یہاں کیوں آیا یہ جگہ تو انصاف کی نہیں ہے کل دربار میں آنا وہاں میں اس کا انصاف کر دوں گا اور اس وقت تو یہاں سے چلا جا۔ پھر وہ بولا کہ تم ہمارا انصاف یہی کر دو اور بغیر انصاف کروائے  ہم یہاں سے نہیں جائیں گے۔ چنا نچہ یہ مکالمہ ہو ہی رہا تھا کہ ادھردریاے نیل کا پانی جاری ہو گیا اور دریاے نیل پھر بھر گیا۔ یہ دیکھ کر فرعون بہت خوش ہوا اور اس خوشی کے عالم میں وہ اس شخص سے کہنے لگا: اے نوجوان تم کیا چاہتے ہو؟ اس کے پوچھنے پر اس نوجوان نے فرعون سے کہا: جو بندہ خداوندعالم کی نافرمانی کرے اور اس کے حکم کو بھی تسلیم نہ کرے اور خداوند قدوس اس پر اپنی مہربانی کرے تو تم مجھ کو یہ بتاؤ کہ اس بندے کی کیا سزا ہے؟ توفرعون نے جواب دیا کہ اس بندے کی سزا تو یہ ہے کہ اس کو دریائے نیل میں ڈبو کر مارنا چاہیے۔ اس نوجوان نے یہ جواب سن کر کہا بہت اچھا آپ اس بات کو  مجھے لکھ کر دے دیں تاکہ یاداشت رہے اور بندہ آپ کے دربار میں حاضر ہوں گا اور آپ کے حضور میں اظہار کرے گا۔ فرعون بولا کہ بھئی یہاں تو دوات قلم اور کاغذ نہیں ہے میں کس طرح لکھوں؟ اس نوجوان نے کہا:" میں دیتا ہوں تم لکھو" پھر فرعون نے اس غار کے اندر بیٹھ کر خوشی سے لکھا کہ جو بندہ اپنے خدا کی نافرمانی کرے گا اور اس کا حکم نہ مانے تو خداوند اس کو سب طرح سےآرام دے کھانے کو دے تو اس بندے کی سزا یہ ہے کہ اس کو دریائے نیل میں ڈبو کر مارا جائے۔ اس طرح یہ دستاویز لکھ کر اس نوجوان کے حوالے کی اور اس نے یہ نہ جانا کے وہ نوجوان کون تھا اوروہ نوجوان یہ دستاویز لکھوا کر نظروں سے غائب ہو گیا۔ وہ درحقیقت حضرت جبرائیل علیہ السلام تھے۔ 

  Meeting a young man in a cave

When Pharaoh was praying in the court of God, a man came from the unseen and stood at the entrance of the cave. And he said to Pharaoh: I have brought to you the complaint of a man, so do justice to him. So get out of here Then he said, "Do us justice and we will not leave without justice." The conversation was going on when the Nile River overflowed and the Nile River overflowed again. Pharaoh was very happy to see this and in this world of happiness, he said to this man: What do you want, young man? At his request, the young man said to Pharaoh: If a servant disobeys the Lord of the worlds and does not obey his command and the Holy Lord has mercy on him, then tell me what is the punishment of that servant? Pharaoh replied that the punishment for this slave was that he should be drowned in the River Nile. Upon hearing this answer, the young man said, "You should write it down so that it may be remembered and the servant will come to your court and express himself before you." Pharaoh said, "Brother, there is no medicine, pen, and paper here. How can I write?" The young man said: "I will give it to you to write." Then Pharaoh sat down in the cave and gladly wrote: "Whoever disobeys his God and disobeys him, the Lord will give him comfort in every way." So the punishment for this slave is to drown him in the River Nile. He wrote the document and handed it over to the young man, who did not know who the young man was and the young man disappeared after writing the document. He was, in fact, Gabriel.

دریائے نیل پر فرعون کی حکمرانی

پھر اس کے بعد غیب سے آواز آئی" اے فرعون! دریائے نیل کو میں نے تیرے حکم کے تابع کردیا تو جب حکم کرے گا کہ اے پانی کھڑا رہ تو  وہ پانی تیرے حکم سے کھڑا رہے گا اگر تو کہے گا کہ اے پانی تو جاری ہو تو وہ پانی جاری ہو جائے گا" وہ تیرے حکم کا تابع ہوگا۔ یہ سن کر فرعون بہت خوش ہوا اور اپنے گھر واپس چلا آیا اور دریائے نیل کو جس طرف کہتا ہے وہ اسی طرف جاتا اگر وہ یہ کہتا کہ اے پانی تو اونچا ہو کر چل تو پانی پہاڑ سے زیادہ اونچا ہو کر چلتا اور اگر وہ کہتا ہے کہ اے پانی تو نیچے ہو کر چل تووہ پانی نیچے ہو کر چلتا۔ چند روز کے واسطے اللہ تعالی نے فرعون ملعون کو ایسی کرامت دی تھی۔ باوجود اس کے کہ اس ملعون نے خدائی کا دعویٰ کیا تھا اور کہتا تھا کہ اے لوگو! میں مصر کا مالک ہوں اوردیاے نیل بھی میرے تابع ہے دیکھو تو پانی دریاے نیل  میں بالکل خشک ہو گیا تھا وہ میں نے ہی جاری کیا ہے تمہارے پینے کے لئے" جب اہل مصر نے یہ کرامت دیکھی تو پھر فرعون کی تعریف کرتے ہوئےسجدے میں گرگئے اور اس کی ربوبیت کا اقرار کیا۔ فرعون کو یہ کرامت عطا کرنے میں بھی اللہ تعالی کی حکمت شامل تھی اس سے نہ صرف فرعون کی  سرکشی کو مزید ڈھیل دینا بلکہ  اس  سے ایمان والوں کے ایمان کو بھی آزمانا تھی۔ 



Pharaoh's rule over the Nile

Then came the voice from the unseen: "O Pharaoh! I have made the river Nile subject to your command, so when you say, 'O water, stand still, that water will stand by your command,' Then the water will be released. ”He will obey your command. And when Pharaoh heard this, he was glad, and returned to his house, and went to the Nile, whithersoever he would go. That is, O water, if you go down, then the water would go down. For a few days, Allah Almighty had given such a miracle to the accursed Pharaoh. Even though this accursed man claimed to be God and said: O people! I am the lord of Egypt and the river Nile is also subject to me. Look, the water in the river Nile had dried up completely. I have given it to you to drink. " He confessed his lordship. The wisdom of God Almighty was also involved in bestowing this miracle on Pharaoh.








Post a Comment

0 Comments